تاریخی
روایات پر ایک نظر
نام ونسب
آپ کا پورا نام اور سلسلہ نسب یوں
ہے :
سلیمان
بن صرد (بضم المھملة و فتح الراء)بن الجون بن ابی
الجون بن منقذ بن ربیعہ بن اصرم بن حرام بن حبشیةبن سلول بن کعب بن
عمروبن ربیعةالخزاعی الکوفی۔(تہذیب الکمال: ۱/۴۵۴، طبقات ابن سعد :۴ /۲۹۲،معرفة الصحابة:۲ /۴۶۱،الاصابة:۲ /۷۵، التاریخ الکبیر:۴/ ۱، الجرح والتعدیل:۴ /۱۲۰، تاریخ بغداد :۱ /۲۱۵ ، سیر الاعلام النبلاء:۳ /۳۹۴ ،تہذیب التہذیب:۴ /۲۰۰،تاریخ الاسلام :۲/ ۴۱۶،طبقات ابن سعد :۴ /۲۹۲ ) ابو مطرف ان کی کنیت ہے ۔ (تاریخ
بغداد:۱
/۲۱۵،طبقات
ابن سعد:۴/
۲۹۲)
شرف صحبت
آپ صحابی رسول صلی اللہ علیہ
وسلم ہیں ۔(معرفة الصحابة :۲ /۴۶۱، الاصابة ۲ /۷۶)علامہ ذہبی
نے آپ کو صغار صحابہ میں شمار کیا ہے ۔(تاریخ اسلام : ۲/۴۱۶ ) لیکن علامہ عسقلانی ،عینی اور قسطلانی
رحمہم ا للہ اجمعین نے آپ کو افاضل صحابہ میں شمار کیا ہے۔(فتح
الباری ۲/ ۴۸۴ ، عمدة القاری: ۳/۲۹۷ ، ارشادی الساری : ۱ /۴۹۳)
کسب فیض اور
حدیث کی روات
آپ نے براہِ راست مشکوٰة نبوت سے کسب
فیض کیا ،حدیث کا سماع حضورصلی اللہ علیہ وسلم، ابی
بن کعب ،علی ابن ابی طالب ،جبیر بن مطعم اور حضرت حسن بن علی سے کیا ۔(الاصا بة:۲ /۷۶، تاریخ الاسلام:۲/۴۱۲،تہذیب الکمال:۱۱/۴۵۵،سیر الاعلام النبلاء:۳/ ۳۹۴، تہذیب التہذیب: ۴/ ۲۰۰)
آپ سے حدیث
کا سماع کرنے والے
آپ سے حدیث کا سماع کرنے والوں میں
ابواسحاق سبیعی،تمیم بن سلمہ ،شقیر عبدی، شمر، ضبثم
ضبی، عبداللہ بن یسار جھنی ،عدی بن ثابت ،ابو الضحیٰ
مسلم بن صبیح ، یحیٰ بن یعمراو رابو عبداللہ جدلی
رحمہم اللہ شامل ہیں ۔(تاریخ بغداد :۱/ ۲۱۵، الاصابة:۲ /۷۶ ، تہذیب الکمال :۱۱/۴۵۵، ۴۵۶
، الجرح وا لتعدیل :۴ /۱۲۰ )
حالات زندگی
اسلام لانے سے
قبل زمانہٴ جاہلیت میں آپ کا نام یسار تھا ،جب اسلام قبول
کیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت نصیب ہوئی
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
ان کا نام یسار سے بدل کر ”سلیمان “ رکھا۔ (الاصابة:۲ /۷۶، تہذیب الکمال :۱۱ /۴۵۶، تاریخ بغداد : ۱/۲۱۵، تہذیب التہذ یب :۴ / ۲۰۰ )
آپ
اپنی قوم کے بلند مرتبہ اور معزز
افراد میں سے تھے ۔(الاستیعاب: ۲ /۶۴، طبقات ابن سعد :۴/ ۲۹۲،تاریخ الاسلام :۲ /۴۱۳،تہذیب الکمال :۱۱ /۴۵۶)
حضور اقدس صلی اللہ علیہ
وسلم جب اس دنیا سے پردہ فرماگئے تو حضرت سلیمان بن صرد دیگر مسلمانوں کے ساتھ کوفہ تشریف
لائے ۔( طبقات ابن سعد:۴ /۲۹۲،تہذیب الکمال :۱۱ /۴۵۶، الاستیعاب: ۲ /۶۳،۶۴) خطیبِ بغدادی وغیرہ کے بقول آپ نے بنو خزاعہ
میں رہائش اختیار کی ، اس کے علاوہ آپ نے مدائن اور بغداد کا بھی
سفر کیا ۔(تاریخ بغداد :۱ ۲۱۵،الاستیعاب :۲ /۶۳،تہذیب الکمال:۱۱/ ۴۵۶)
ابن عبد البررحمةاللہ علیہ نے
فرمایا :”کَانَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ خَیْرًا فَاصِلاً لَہ
دِیْنٌ وَ عِبَادَةٌ“
(الاستیعاب :۲ /۲۳،تہذیب
الکمال:۱۱/
۴۵۶،
تہذیب التہذیب :۴ /۲۰۰)آپ
بہترین فاضل متدین اور عبادت گزار شخص تھے ۔حضرت علی کے ساتھ جنگ جمل وصفین میں
شریک ہوئے۔ طبقات ابن سعد :۴ /۲۹۲ ،تہذیب التہذیب :۴/ ۲۰۰، الاستیعاب :۲/ ۶۴، الاصابة :۲/ ۷۶، معرفة الصحابہ : ۲/ ۴۶۱، تہذیب الکمال :۱۱ /۴۵۶)
وفات
آپ کی تاریخ وفات کے بارے میں
دو قول ہیں :ابن حبان
نے رمضان المبارک کا مہینہ ۶۷ ہجری کو وفات قرار دیا ہے ۔ (کتاب الثقات:۱ / ۳۳۰)جب کہ اکثر موٴرخین نے ربیع الاول ۶۵ہجری میں ۹۳ سال کی عمر
میں وفات کو نقل کیا ہے ،یہی اصح ہے، جیسا کہ حافظ
ابن حجر نے اس کی تصریح فرمائی
ہے ۔(تاریخ بغداد :۱ /۲۱۵ ، طبقات ابن سعد :۴/ ۲۹۲ ،۲۹۳
،تاریخ الاسلام: ۲ / ۴۱۲،الاصابة : ۲ / ۷۶،الاستیعاب : ۲ / ۶۴ ، تہذیب الکمال :۱۱/ ۴۵۶ ،۴۵۷،سیر
اعلام النبلاء: ۳/ ۳۹۵ ، معرفةالصحابہ :۲ / ۴۶۱،تہذیب التہذ یب :۴ / ۲۰۱)
سلیمان بن
صرد رضی اللہ عنہ سے متعلق تاریخی روایات کا جائزہ
تاریخ کی کتابوں میں
عام طور سے ہر طرح کی روایات کو سند وں کے ساتھ جمع کیا جاتا
ہے، تنقیح وتحقیق نہیں کی جاتی ہے، ان روایات
کی تنقیح و تحقیق ماہرین فن کے ذمہ ہوتی ہے ، بغیر
تنقیح و تحقیق ان روایات پر قبول و عدم قبول کا حکم لگانا درست
نہیں؛ اس لیے ماہرین فن کے اقوال کی روشنی میں
حضرت سلیمان بن صرد
سے متعلق تاریخی روایات کا جائزہ لینا ضروری ہے ۔
حضرت سلیمان
بن صرد کے حوالے سے بھی کتب ِ تاریخ
خاص کر تاریخِ طبری :۳/ ۲۷۷، ۳۹۰
، ۳۹۱ ،۳۹۷،
۴۰۵،۴۲۰۔ ابن اثیر جزری کی ” الکامل “(الکامل
فی التاریخ :۳/ ۳۸۵، ۴۸۶،
۴۹۰،۴
/ ۳ ، ۱۲)،اور ان دونوں سے منقول ہو کر ابن ِکثیر کی ”البدایة
والنہایة“ وغیرہ میں جو روایات مذکور ہیں، ان کا
کچھ حصہ کتبِ رِجال میں بھی نقل کیا گیا ہے ۔
(الاستیعاب : ۲ /۶۴،
الاصابة: ۲/
۷۶ تہذیب
الکمال:۱۱/
۴۵۶،
سیر اعلام النبلاء: ۳/ ۳۹۵ ،طبقات ابن سعد: ۴/۲۹۲،۲۹۳،الثقات :۱ /۳۳۰)
ان روایات کا خلاصہ یہ ہے
کہ حضرت سلیمان بن صرد
ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے حضرت حسین کو کوفہ بلانے کے لیے خطوط لکھے
،اور ان کے تشریف لانے پر انھیں اکیلا چھوڑدیا ، ان کی
مدد سے پیچھے ہٹے ، ان کی شہادت پر ندامت ہوئی تو ایک
لشکر بناکر ان کا بدلہ لینے کے لیے عبیداللہ بن زیاد سے
لڑائی کی، وغیرہ وغیرہ۔(تاریخ بغداد:۱/ ۲۱۵ ،۲۱۶)
ابو مخنف لوط بن یحی
کتبِ تاریخ کی ان تمام روایات
کو جو سلیمان بن صرد
کے حوالے سے ہیں کسی بھی طرح منِ وعن تسلیم نہیں کیا
جاسکتا ہے، لہٰذا جب اس طرح کی روایات کی حقیقت
جاننے کے لیے کتبِ تاریخ اور پھر کتبِ رجال کی مراجعت کی
تویہ بات واضح ہوگئی کہ ان میں سے اکثر روایات ابو مخنف
لوط بن یحیٰ کی گھڑی ہوئی ہیں، لوط بن یحیٰ
ابو مخنف کے بارے میں ائمہ جرح وتعدیل کے اقوال ملاحظہ فرمائیں
:
علامہ ذہبی اور
ابن حجر کہتے ہیں :”اَخْبَارِیٌّ تَألَّفَ
لاَ یُوْثَقُ بِہ “ ۔
(لسان المیزان : ۵/۵۶۷،میزان
الاعتدال:۳
/۴۱۹ )
ابو حاتم وغیرہ نے اسے متروک الحدیث
کہا ہے ۔( الجرح والتعدیل :۷ /۲۴۸ ،لسان المیزان :۵ /۵۶۷، سیر اعلام النبلاء :۷/ ۳۰۲ )
یحییٰ بن معین
نے فرمایا: ”لَیْسَ بِثِقَةٍ، لَیْسَ بِشَيْءٍ“۔ (الضعفاء الکبیر: ۴/ ۱۸ ، لسان المیزان:۵ /۵۶۸)عقیلی نے” ضعفاء“ میں ذکر کیا ہے۔
(حوالہٴ بالا ، مزید دیکھیے: سیر اعلام النبلاء : ۷ / ۳۰۲،الضعفاء والمتروکین ،ص: ۳۳۳ ، میزان الاعتدال : ۳/ ۴۲۰، المغنی فی الضعفاء : ۲ /۲۳۴)
ابو عبید آجری کہتے ہیں
کہ میں نے امام ابو داؤد
سے ابو مخنف کے بارے میں پوچھا ،تو انہوں نے اپنے ہاتھ جھاڑے اور فرمایا
کہ کیا کوئی اس کے بارے میں بھی پوچھتا ہے یعنی
یہ اس قابل نہیں کہ اس کے بارے میں پوچھا جائے ۔(لسان المیزان
۵
/۵۶۸)
ابن عراقی کنانی فرماتے ہیں
:”کَذَّابٌ تَألَّفَ “(تنزیہ الشریعة:۱/ ۹۸) ابن جو زی نے بھی کذاب کہا ہے،(الموضوعات ،ص:۴۰۶)
ابن عدی نے فرمایا : ”شِیْعِیٌ
مُحْتَرِقٌ، صَاحِبُ أخْبَارِھِمْ“۔
(الکامل فی الضعفاء الرجال :۶ / ۹۳ ،لسان المیزان:۵ /۵۶۸)بعض نے تو یہاں تک لکھا کہ یہ” امامی“ شیعہ
تھا ۔(الاعلام لخیر الدین الزرکلی:۵ / ۲۴۵)
ابو مخنف شیعہ موٴرخین کی
نظر میں
شیعہ موٴرخین
خاص کرکتبِ رجال کے مصنّفین محسن امین ،شرف الدین ، آغا بزرگ
طہرانی، عباس قمی،محمد مہدی طبا طبائی، خوئی،خاقانی
، نجاشی ،حلی،اور طوسی وغیرہ نے اس کا تذکرہ اپنی
کتابوں میں بطور شیعہ موٴرخ کے کیا ہے؛ بلکہ اس کا شمار
بڑے اور اکابر شیعہ موٴرخین میں کیا ہے۔ (اعیان
الشیعہ ،ص:۱۲۷
،اعلام الشیعہ:۱ / ۱۶،الکنیٰ
والالقاب:۱
/۱۴۸،فہرست
اسماء مصنفی الشیعہ للنجاشی، ص: ۲۲۴ ،۲۲۵،الفہرست
للطوسی :۲ / ۲۰
،الفوائد الرجالیہ لبحر العلوم :۱ / ۳۷۵، ۳۷۹،
الکنیٰ والالقاب:۱/ ۱۶۹،المراجعات:۲ /۲۱،حلیة الابرار :۴ / ۱۴۶،رجال الخاقانی: ۱ /۱۷۷،رجال الطوسی:۱ / ۴۵۹،رجال النجاشی :۱ /۳۲۱،معجم رجال الحدیث :۱۱ /۱۳۶ ،۱۳۸،الاحتجاج
لطبرسی : ۱/۴۵۶،
الذریة: ۶ / ۳۹۴ ،خلاصة الاقوال : ۱ / ۳۸۹،نقد الرجال :۷ /۱۴۰،۱۴۱))
مزید برآں صاحب ”الفوائد الرجالیہ
“طباطبائی نے تو یہاں تک لکھ دیا ہے اس کے شیعہ ہو نے میں
کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے، جیسا کہ اصحابِ معاجم کی
ایک جماعت نے اس کی تصریح کی ہے ۔(الفوائد الرجالیہ:۱ ۳۷۹)
حساس موضوعات پر
جھوٹ پر مبنی کتابیں لکھنا
یہ ابو
مخنف وہ بدبو دار شیعی موٴ رخ ہے جس نے خیر القرون میں
رو نما ہونے والے تمام اہم واقعات پرجھوٹ سے بھری مستقل کتابیں لکھی
ہیں،جیسے: سقیفہٴ بنو ساعدہ میں بیعت ابو بکر ،شوریٰ، خلافت سے متعلق حضرت
عمر کی قائم کردہ شوریٰ ،
مقتل عثمان ،مقتل علی، جنگ جمل وصفین ،مقتلِ حسین،وفاتِ معاویہ اور ولایتِ یزید ، مقتل عبداللہ بن الزبیر، سلیمان بن صرد اور عین وردہ وغیرہ۔
(فوات الوفیات لمحمد بن شاکر ،ص :۲۲۵ ،الاعلام للزرکلی : ۵ / ۲۴۵ ، الفہرست لابن الندیم، ص: ۱۰۵ ، ۱۰۶
، معجم الادباء :۶ /۶۷۰ ، معجم المئولفین :۸ / ۱۵۷ )
مشہور مستشرق
(اے بیل )نے ”دائرہ معارف اسلامیہ “ میں اس بات کی تصریح
کی ہے کہ ابو مخنف نے قرونِ اول میں رو نما ہونے والے واقعات کی
تاریخ میں ”۳۲“رسالے لکھے ہیں،
جن کا اکثر حصہ طبری نے نقل کیا ہے؛ البتہ ابو مخنف سے منسوب جو کتابیں
ہم تک پہنچیں ہیں وہ متاخرین (شیعہ ) کی وضع کردہ ہیں
۔ (الاعلام للزرکلی:۵ ۲۴۵)
عباس قمی شیعی نے
”الکنیٰ والالقاب“ میں ابو مخنف کے بارے میں لکھا ہے کہ :
ابو مخنف بڑے شیعہ مورخین میں سے تھا اس کے مشہور شیعہ ہو
نے کے باوجود طبری اورابن اثیر وغیرہ نے اس سے روایات نقل
کر نے میں اس پر اعتماد کیا ہے ۔( الکنیٰ والألقاب
:۱/۱۶۹)
حافظ ابن کثیر کا قول
حافظ ابن کثیر ، طبری وغیرہ سے ابو مخنف کی
روایات نقل کر نے کے بعد یہ لکھنے پر مجبور ہوئے :
شیعوں
اور رافضیوں کی شہادت حسین سے متعلق بہت ساری دروغ گوئیاں
اور بے بنیاد خبریں ہیں ، ہم نے جو ذکر کیا اس میں
وہی کافی ہے اور ہماری ذکر کردہ بعض چیزیں قابلِ
اشکال ہیں، اگر ابن جریر طبری وغیرہ جیسے ائمہ اور
حفاظ اسے ذکر نہ کرتے تو ہم بھی ان روایات کو نہ لاتے اور یہ
اکثر ابو مخنف کی روایتیں ہیں جو یقینا شیعہ
ہے اور ائمہٴ حدیث کے نزدیک ضعیف ہے ؛لیکن اخباری(صحافی)
اور حافظ ہے اور اس کے پاس اس حوالے سے ایسی چیز یں ہیں
جو دوسروں کے پاس نہیں ہیں،لہٰذا بعد کے اکثر مصنّفین نے
ان روایات کے بارے میں ابو مخنف سے نقل پر اکتفا کیا ہے۔(البدایة
والنھایة : ۸/ ۲۰۹)
ابن عدی کی صراحت
ابن عدی نے صراحت کی ہے کہ اس کی کوئی
روایت قابل ِاعتبا رنہیں ،سب بدبو دار اور بے ہودہ روایتیں
ہیں اور کوئی بعید نہیں کہ یہ بد بخت سلف صالحین
کی ہتک عزت کرتا ہے؛ چناچہ وہ فرماتے ہیں:
ابو مخنف متقدمین
سلف صالحین کے بارے میں خبریں نقل کرتا ہے اور اس سے بعید
نہیں کہ وہ ان کی ہتک عزت کرے ، یہ بدبو دار شیعہ اور ان
کا مورخ ہے، میں نے اس لیے اس کا ذکر کیا ہے کہ اس کی
احادیث کے ذکر سے استغناء نہیں ،میرے علم میں اس کی
کوئی ایسی صحیح روایت نہیں جسے میں ذکر
کروں، اس کی صرف وہ نا پسندیدہ بدبودار روایتیں ہیں
جنہیں میں ذکر کرنا پسند نہیں کرتا ہوں ۔(الکامل فی
ضعفاء الرجال :۶ /۹۳)
خلاصہ کلام
ان تمام تصریحات
سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی ہے کہ ا بو مخنف ایک بدبودار، شیعہ
،امامی، مورخ ہے جو بالاتفاق تمام ائمہ حدیث ورجال کے نزدیک
ناقابلِ اعتبار اور جھو ٹا شخص ہے؛ بلکہ ابن عدی کے بقول یہ شخص سلفِ صالحین
کے واقعات ذکر کر کے ان کی ہتک عزت کرتا ہے؛ چنانچہ جن اہلِ تاریخ نے
اپنی اسناد کے ساتھ خاص کر طبری اور ابن اثیر وغیرہ نے جو
بغیر کسی تنقیح وتحقیق کے اس طرح کے بدبودار شیعہ
،امامی اور جھو ٹے شخص کی بے بنیاد روایتوں کو اپنی
کتابوں میں بکثرت نقل کیا ہے، وہ قابل اعتبار ہرگز نہیں،ضرورت
اس امر کی ہے کہ حضراتِ صحابہ اکرام سے متعلق کوئی ایسی
روایت سامنے آئے جس میں اشارتاًو کنایتاً یا کسی بھی
پیرائے سے ان کی شان میں گستاخی ،یا تنقیص کا
پہلو نکلتا ہو ، تو اس کو ا ٓ نکھیں بند کر کے نقل کرنے ،یااس
پر اندھا اعتماد کرنے کے بجائے اس کی تنقیح او رتحقیق کی
جائے، تا کہ ابو مخنف جیسے بد بخت شیعہ موٴرخ حضرات صحابہ اکرام پر کیچڑ اچھالنے کی منحوس
،نا مبارک اور نا مسعودسعی اور گھناؤ نے منصوبے میں ناکام اور نا مراد
ہوجائیں ۔
***
-------------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 6 ،
جلد: 97 ، شعبان 1434 ہجری مطابق جون 2013ء